حلب میں جنگجوؤں کو محفوظ راستہ دینے کی متضاد اطلاعات

0
851

شام کے جنگ سے متاثرہ شہر حلب میں حکومت مخالف باغی جنگجوؤں کو ان کے خاندانوں اور دیگر عام شہریوں کے ہمراہ محفوظ راستہ دیے جانے کے کے حوالے سے امریکا اور روس کے درمیان معاہدہ طے پانے کی متضاد اطلاعات سامنے آئی ہیں۔

شامی اپوزیشن کےایک ذمہ دار ذریعے نے خبر رساں ایجنسی ’رائیٹرز‘ کو بتایا کہ اپوزیشن کو حلب میں جنگجوؤں کو محفوظ راستہ دیئے جانے کی ایک تجویز سامنے آئی ہے تاہم دوسری جانب روس نے اس خبر کوبے بنیاد اور مغربی ذرائع ابلاغ کے منفی پروپیگنڈے کا حصہ قرار دیا ہے۔

روسی خبر رساں ادارے نے نائب وزیرخارجہ سیرگی ریابکوف کا ایک بیان نقل کیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان اپوزیشن کے جنگجوؤں کو محفوظ راستہ دیے جانے کے حوالے سے کسی قسم کا اتفاق رائے نہیں ہوا ہے۔

مسٹر ریابکوف کا کہنا تھا کہ مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے اڑائی گئی افواہوں پر یقین کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ حلب سے عام شہریوں کے انخلاء کے انتظامات روس کے پیش نظر ہیں اور ہم اس کے لیے کام کررہے ہیں مگر جنگجوؤں کو محفوظ راستہ دیے جانے کی کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔

روسی نائب وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ شدت پسند جنگجوؤں کے انخلاء کامعاملہ الگ نوعیت کی ڈیل ہے جس پر کوئی اتفاق رائے نہیں ہو پایا ہے۔ یہ معاہدہ امریکا کی ناقابل قبول شرائط کی وجہ سے تعطل کا شکار ہے۔

ادھر شامی اپوزیشن کے ایک ذریعے نے اتوار کو اپنے ایک بیان میں بتایا تھا کہ مشرقی حلب میں حکومت مخالف جنگجوؤں کو اپنے خاندانوں کے ساتھ علاقے سے نکل جانے کے لیے محفوظ راستہ دینے پر امریکا اور روس کےدرمیان اتفاق رائے ہوگیا ہے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کےدرمیان طے پائے معاہدے کے تحت جنگجو 48 گھنٹوں کے اندر اندر اپنے خاندانوں کے ساتھ حلب سے نکل کر کسی دوسرے مقام پر جا سکتے ہیں۔ روس اورامریکا دونوں حکومت مخالف جنگجوؤں کو محفوظ راستہ دینے کی ضمانت فراہم کریں گے۔

اپوزیشن کا کہنا ہے کہ جنگجوؤں کو محفوظ راستہ دینے کے حوالے سے شامی حکومت اور روس اعلانیہ جنگجوؤں کی سلامتی کی ضمانت دیں گے۔ جبۃ فتح الشام ’جفش‘ نامی گروپ کے جنگجوؤں کو ادلب اور باقی کو شام کے دوسرے علاقوں کی طرف جانے کی اجازت دی جائے گی۔

شامی اپوزیشن کی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان بریگیڈیئر اسعد الزعبی نے حلب میں جنگجوؤں کے پرامن انخلاء پرامریکا اور روس کے درمیان ڈیل کی خبروں کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کی تجاویز پرعمل درآمد ممکن نہیں۔

Comments

comments

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here