ایرانی حکام کی رحم دلی اور دریا درلی ان دنوں موجیں مار رہی ہے اور انھوں نے شام میں صدر بشارالاسد کی وفادار فوج کے شانہ بشانہ جا کر لڑنے والے بدنام زمانہ سزایافتہ مجرموں کو عام معافی دینا شروع کردی ہے۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک مقامی ویب سائٹ الحصار نے ہفتے کے روز سزایافتہ عادی مجرموں کے بارے میں یہ اطلاع دی ہے۔اس نے بتایا ہے کہ حکام ایرانی اور افغان قیدیوں کو شام میں جنگ میں شرکت کے لیے جانے پر آمادہ کررہے ہیں اور اگر وہ ان کی بات مان لیتے ہیں تو ان سے معافی کا وعدہ کیا جاتا ہے۔
اس ذریعے کے مطابق جیل حکام نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اگر رضاکار قیدی شام میں لڑتے ہوئے ہلاک ہوجاتے ہیں تو انھیں ”شہید” کا درجہ دیا جائے گا اور ان کے خاندانوں کو اس کے فوائد وثمرات اور سہولتوں سے نوازا جائے گا۔
واضح رہے کہ شام میں گذشتہ پانچ سال سے جاری جنگ کے دوران ہزاروں ایرانی فوجی اور شیعہ جنگجو ہلاک ہوچکے ہیں۔ایران خفیہ طور پر عراقی ،پاکستانی اور افغان اہل تشیع کو بھی شام میں صدر بشارالاسد کی وفادار فوج کے شانہ بشانہ اور باغی گروپوں کے خلاف لڑائی کے لیے بھرتی کرکے بھیج رہا ہے۔
ایران کی رجاعی شرقرج جیل میں قید ایک شخص نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ قیدیوں کو شام میں رضا کار کے طور پر لڑنے کے لیے جانے کے ارادے اور معافی کی وجوہ کی وضاحت سے روک دیا گیا ہے۔
نیوز ویب سائٹ کے مطابق اس قیدی کا کہنا ہے کہ ” میری ماں نے رضاکارانہ طور پر شام جا کر لڑنے کی تجویز مسترد کردی ہے اور کہا ہے کہ آیت اللہ علی خامنہ ای اور علی اکبر رفسنجانی کو اپنے بچوں کو لڑائی کے لیے شام بھیجنا چاہیے نہ کہ بے یارو مدد گار قیدیوں اور افغانوں کو اس جنگ میں جھونکا جائے”۔